تمہارا نام کچھ ایسے مرے ہونٹوں پہ کھلتا ہے
اندھیری رات میں جیسے
اچانک چاند بادلوں کے کسی کونے سے باہر جھانکتا ہے
اور سارے منظروں میں روشنی سی پھیل جاتی ہے
کلی جیسے، لرزتی اوس کے قطرے پہن کر مسکراتی ہے
بدلتی رُت، کسی مانوس سی آہٹ کی ڈالی لے کے چلتی ہے
تو خوشبو باغ کی دیوار سے روکے نہیں رکتی
اسی خوشبو کے دھاگے سے مرا ہر چاک سلتا ہے
تمہارے نام کو تارا مری سانسوں میں کھلتا ہے
تمہیں میں دیکھتا ہوں جب سفر کی شام سے پہلے
کسی الجھی ہوئی گمنام سی چنتا کے جادو میں!
کسی سوچے ہوئے بے نام سے لمحے کی خوشبو میں!
کسی موسم کے دامن میں، کسی خواہش کے پہلو میں!
تو اس خوش رنگ منظر میں تمہاری یاد کا رستہ
نجانے کس طرف سے پھوٹتا ہے
اور پھر ایسے مری ہر راہ کے ہمراہ چلتا ہے
کہ آنکھوں میں ستاروں کی گزر گاہیں سی بنتی ہیں
دھنک کی کہکشائیں سی
تمہارے نام کے ان خوشنما حرفوں میں ڈھلتی ہیں
کہ جن کے لمس سے ہونٹوں پہ جگنو رقص کرتے ہیں
تمہارے خواب کا رشتہ مری نیندوں سے ملتا ہے
تو دل آباد ہوتا ہے
مرا ہر چاک سلتا ہے
تمہارے نام کا تارا مری راتوں میں کھلتا ہے
No comments:
Post a Comment