Tuesday, 17 September 2013

Tumhara Naam Kuch Aisy Mery Honto Pe Khilta hai

تمہارا نام کچھ ایسے مرے ہونٹوں پہ کھلتا ہے
اندھیری رات میں جیسے
اچانک چاند بادلوں کے کسی کونے سے باہر جھانکتا ہے
اور سارے منظروں میں روشنی سی پھیل جاتی ہے
کلی جیسے، لرزتی اوس کے قطرے پہن کر مسکراتی ہے
بدلتی رُت، کسی مانوس سی آہٹ کی ڈالی لے کے چلتی ہے
تو خوشبو باغ کی دیوار سے روکے نہیں رکتی
اسی خوشبو کے دھاگے سے مرا ہر چاک سلتا ہے
تمہارے نام کو تارا مری سانسوں میں کھلتا ہے

تمہیں میں دیکھتا ہوں جب سفر کی شام سے پہلے
کسی الجھی ہوئی گمنام سی چنتا کے جادو میں!
کسی سوچے ہوئے بے نام سے لمحے کی خوشبو میں!
کسی موسم کے دامن میں، کسی خواہش کے پہلو میں!
تو اس خوش رنگ منظر میں تمہاری یاد کا رستہ
نجانے کس طرف سے پھوٹتا ہے
اور پھر ایسے مری ہر راہ کے ہمراہ چلتا ہے
کہ آنکھوں میں ستاروں کی گزر گاہیں سی بنتی ہیں
دھنک کی کہکشائیں سی
تمہارے نام کے ان خوشنما حرفوں میں ڈھلتی ہیں
کہ جن کے لمس سے ہونٹوں پہ جگنو رقص کرتے ہیں
تمہارے خواب کا رشتہ مری نیندوں سے ملتا ہے
تو دل آباد ہوتا ہے
مرا ہر چاک سلتا ہے
تمہارے نام کا تارا مری راتوں میں کھلتا ہے



No comments:

Post a Comment

Contact Form

Name

Email *

Message *