رات اوڑھے ہوئے آئی ہے فقیروں کا لباس
چاند کشکولِ گدائی کی طرح نادم ہے
دل میں دہکے ہوئے ناسور لئے بیٹھا ہوں
یہی معصوم تصور جو ترا مجرم ہے
کون یہ وقت کے گھونگٹ سے بلاتا ہے مجھے
کس کے مخمور اشارے ہیں گھٹاؤں کے قریب
کون آیا ہے چڑھانے کو تمنّاؤں کے پھول
ان سلگتے ہوئے لمحوں کی چتاؤں کے قریب
وہ تو طوفان تھی، سیلاب نے پالا تھا اسے
اس کی مدہوش امنگوں کا فسوں کیا کہیے
تھرتھراتے ہوئے سیماب کی تفسیر بھی کیا
رقص کرتے ہوئے شعلے کا جنوں کیا کہیے
رقص اب ختم ہوا موت کی وادی میں مگر
کسی پائل کی صدا روح میں پایندہ ہے
چھپ گیا اپنے نہاں خانے میں سورج لیکن
دل میں سورج کی اک آوارہ کرن زندہ ہے
کون جانے کہ یہ آوارہ کرن بھی چھپ جائے
کون جانے کہ اِدھر دھند کا بادل نہ چھٹے
کس کو معلوم کہ پائل کی صدا بھی کھو جائے
کس کو معلوم کہ یہ رات بھی کاٹے نہ کٹے
زندگی نیند میں ڈوبے ہوئے مندر کی طرح
عہدِ رفتہ کے ہر اک بت کو لئے سوتی ہے
گھنٹیاں اب بھی مگر بجتی ہیں سینے کے قریب
اب بھی پچھلے کو، کئی بار سحر ہوتی ہے
No comments:
Post a Comment